HAR KHABAR

فوج کے نام پر جعلساز کیسے لوٹ مار کرتے ہیں، اس وقت مارکیٹنگ، پلاٹس، نوکریوں، اور انعامی رقم کا لالچ دے کر سادہ لوح عوام کو لوٹنے میں کون متحرک ہیں، حقائق پر مبنی تحریر

تحریر۔۔ ایچ آر قادری 


پاک آرمی کاآفیسر بن کر لوگوں کی پرنسل انفارمیشن بینک اکاﺅنٹس نمبر ز اور دیگر حساس معلومات حاصل کرکے لوٹ مار کرنے والا گینگ تاحال سرگرم ہے ،گزشتہ دنوں ایف آئی اے کی جانب سے ایک کارروائی کی گئی جس میں پانچ سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جوآرمی آفیسر بن کر لوگوں سے ان کی معلومات حاصل کرتے تھے اور بینک اکاﺅنٹس تک رسائی حاصل کرکے ان کا صفایا کردیتے تھے۔ ملزمان کا طریقہ واردات اتنا خوفناک تھا کہ لوگوں کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ انہیں دہشتگرد تنظیموں سے تعلق کا کہہ کر متعلقہ شخص اور اس کے خاندان کو ذہنی اذیت کا شکار کر دیتے تھے جس کی بدولت متعدد خاندان اپنی جمع پونجی لٹا بیٹھے ہیں۔بلا شبہ پاک آرمی نے مشکل ترین حالات میں ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ کیا اس کے ساتھ ساتھ دیگر عوامی نوعیت کے مسائل میں بھی پاک آرمی پیش پیش رہی سی پیک منصوبے اور اسی طرح مردم شماری کے دوران پاک فوج کے جوانوں نے شدید گرمی میں بھی اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے کر سالوں سے مردم شماری کے تعطل معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ جرم کی دلدل میں دھنسے ہوئے بدنما کردار کے مالک جرائم پیشہ عناصر نے پاک آرمی کا نام استعمال کرکے لوگوں کو لوٹنے کا عمل شروع کیا چونکہ عوام پاک فوج پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اسی بھروسے کو غلط استعمال کرتے ہوئے پاک فوج کو بدنام کرنے کی ناکام سازش تاحال کی جارہی ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے کی گئی کارروائی کے دوران گرفتار ملزموں سے انکشاف ہوا کہ سادہ لوح عام شہریوں کے ساتھ فراڈ کا مرتکب یہ گروہ ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے جیسا کہ بے نظیر انکم سپورٹ ، موبائل لوڈ، انعامی رقم اور دیگر لالچ دے کر اسی طرح کے گروہ سرگرم رہے ہیں اور کئی خاندانوں کی جمع پونجی ہڑپ چکے ہیں۔ سادہ لوح عوام کو کبھی مارکیٹنگ کمپنی کے نام پر لوٹا جاتا ہے کبھی انعامی رقم کے لالچ میں اور کبھی پلاٹ کا جھانسہ دے کر لوٹ مار کی جاتی ہے۔


 یہاں کچھ میرے قریبی دوستوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات جن کا میں براہ راست گواہ اور مجرموں کے خلاف کارروائی کروانے کی کوشش بھی کرچکا ہوں قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں ۔ میرے ایک دوست نے کال کرکے بتایا کہ اسے ایک سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ ملاقات کے دوران اس نے بتایا کہ اسے کسی آرمی آفیسر کی کالز آرہی ہیں۔ پہلے پہل آرمی آفیسر نے مردم شماری کے نام پر معلومات لیں اس کے بعد مسلسل کالز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ فون کرنے والے عناصر جوکہ خود کو آرمی آفیسر کہہ رہا تھا اس نے کہا کہ آپ کالعدم تنظیموں کی مدد کرتے ہیں اس لئے آپ کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے آپ کالعدم تنظیموں کو فنڈنگ کررہے ہیں اور جس اکاﺅنٹس سے آپ فنڈنگ کررہے ہیں ان کی ڈیٹیل ہمارے پاس موجود ہے اور اس شخص نے مختلف بینک اکاﺅنٹس کے نمبرز بتائے جبکہ میں نے اس چیز کا انکار کیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے میں سونے کے زیورات بنانے کی ایک دکان پر سالہا سال سے کام کررہا ہوں اور گھر سے دکان اور دکان سے گھر تک آتا جاتا ہوں اس کے علاوہ کسی سے کوئی ملاقات یا تعلق نہیں ہے۔ فون کرنے والے شخص نے مجھ سے میرے اکاﺅنٹس کے نمبرز مانگے چونکہ اس شخص کی جانب سے جب کالعدم تنظیموں کے حوالے سے ذکر کیا گیا تو اس بات کا علم میرے گھر والوں کو ہوچکا تھا میری والدہ جو پہلے سے بیمار تھیں اس معاملے کا سن کر ان کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی اورانہیں ہسپتال داخل کروانا پڑا۔ اب دن رات ہسپتال اور گھر کے چکر لگانے میں تمام فیملی مصروف ہوچکی تھی۔ اس تمام معاملے کو تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا تھا اور آرمی آفیسر بن کر کالز کرنے والے شخص کے مسلسل فون آرہے تھے حتی کہ میں نے نمبر اٹھانا چھوڑ دیا تو ان کی جانب سے نمبرز بدل بدل کر کالز کی جاتی رہی۔ اسی اثناءمیں ہسپتال سے پتہ چلا کہ والدہ کو کینسر ہوچکا ہے اور آخری سٹیج ہے جبکہ آرمی آفیسر بن کر کال کرنے والے نے ڈرایا کہ اگر ہم سے تعاون نہیں کیا تو جلد پوری خاندان کو گرفتار کرلیا جائیگا اور پھانسی پر چڑھنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس شخص کی جانب سے مسلسل بینک اکاﺅنٹس نمبرز مانگے جارہے تھے اور میرے بنک اکاﺅنٹس میں 7 لاکھ روپے موجود تھے جوکہ والدہ کی بیماری کیلئے بچا کر رکھے تھے۔ اس معاملے کا سن کر پہلے ہی والدہ کی طبیعت بگڑ چکی تھی اور تمام اہل خانہ بھی شدید کرب و اذیت میں مبتلا تھے۔ ایک دن اس نے مجھے کال کی اور میں نے اسے سمجھایا کہ آرمی آفیسر کبھی بھی عام پبلک کو کالز کرکے انفارمیشن حاصل نہیں کرتی۔ اس کیلئے مختلف طریقہ کار ہیں جبکہ اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا بھی تو پولیس یا سی ٹی ڈی اس معاملے کی چھان بین کرتی اور جو لوگ ایسے کسی معاملے میں شامل بھی ہوں تو ان کے خلاف دیگر محکمے کارروائی کرتے ہیں لیکن اس کے چہرے کا ڈر اور خوف بتا رہا تھا کہ ملزمان اپنے منصوبے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اس معاملے کا حل کیا سوچا ہے تو اس نے بتایا کہ میرے پاس جتنے پیسے ہیں میں ان کو دے دوں گا اور وہ میرے کزنز اور دیگر فیملی ممبرز کے اکاﺅنٹس نمبرز اور ان سے بھی پیسوں کا تقاضہ کررہے ہیں اس معاملے کو لیکر زیادہ پریشان ہوں ۔ اس دوست کو میں نے صبح کا ٹائم دیا چونکہ اس وہ مجھے رات گئے ملنے آیا تھا چونکہ میں آرمی، رینجرز ایف آئی اے کا تاحال بیٹ رپورٹر ہوں اس معاملے کو بخوبی جانتا تھا اور جب میرا دوست مجھے ملنے آیا تھا اس وقت رات کا ٹائم تھا میں آئی ایس پی آر لاہور کے میرے دوستوں کو کالز کرکے معاملے کے حوالے سے نہیں پوچھ سکتا تھا لہذا صبح کا ٹائم طے پایا۔ صبح میں ایف آئی اے چلا گیا جہاں اس معاملے کے حوالے سے ذکر ہوان اور ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے بھی معلوم ہوا تو موقع جان کر اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔

 
 ایف آئی اے حکام سے معلوم ہوا کہ ایسے سنگین جرائم میں ملوث افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوتا ہے۔ جو ملزم گرفتار کئے گئے ہیں وہ صرف ایک شہر سے ہیں باقی تمام شہروں میں اپنا نیٹ ورک چلا رہے ہیں اگر بات کی جائے ان جیسے نیٹ ورک کی تو بتاتا چلوں کہ موبائل تک رسائی، بینک اکاﺅنٹس تک رسائی، فیس بک کے ذریعے بلیک میلنگ، مارکیٹنگ کمپنیوں کے ذریعے بلیک میلنگ اور حساس معلومات کے ذریعے بلیک میلنگ کی ہزاروں درخواستیں اس وقت ایف آئی اے حکام کو موصول ہوچکی ہیں اور یہ معاملات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ میں نے اپنے دوست کو اس معاملے کے حوالے سے آگاہ کیا کہ یہ معاملہ سراسر فراڈ اور جعلسازی پر مبنی تھا اور اس کی فیملی کو سمجھایا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد میرے دوست اور اس کی فیملی کے مرجھائے چہرے مطمئن نظر آئے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے جسے مختصراً بیان کرتا ہوں کہ خاتون کی کال آئی کہ میں ایزی لوڈ کی دکان پر کھڑی ہوں اور میں نے والد، بھائیوں اور رشتہ داروں سے ادھار لیکر ڈیڑھ لاکھ روپے اکھٹے کئے ہیں اور گھر لینے کیلئے کسی کمپنی کو بھیج رہی ہوں۔ میں نے اسی فوری منع کیا اور اس کی لوکیشن پوچھ کر فوری طورپر وہاں پہنچ گیا۔ معلومات لینے پر پتہ چلا کہ ایسے ہی کسی ایک نوسر باز گروپ نے دس مرلے مکان کا جھانسہ دیکر اور سستے داموں قرعہ اندازی کے نام پر پیسہ بٹورنے کا جال بن رکھا ہے۔ میں نے اس خاتون سے کہا کہ کس نمبرز سے کالز آرہی ہیں۔ نمبرز جاننے کے بعد میں نے اس نمبر پر پہلے خاتون سے کال کروائی کہ میرا بھائی آپ کو رقم بھیجے گا اسے باقی کارروائی سمجھا دیں۔ میں نے بغیر اپنی پہنچان چھپا کر اس شخص سے بات کی جس سے میری بات ہورہی تھی وہ آواز سے پڑھا لکھا معلوم ہورہا تھا اور اسے مارکیٹنگ کے حوالے سے کافی تجربہ کار لگ رہا تھا۔ میں نا جانوں کی گردان پر عمل کرتے ہوئے اسے کافی معلومات اکٹھی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر اس کے دیگر نمبروں تک رسائی بھی حاصل کرلی۔ پھر ان کو اپنی 
پہنچان کرواکر پوچھا کہاں آنا ہے ۔ اس بعد وہ تمام نمبرز بند ہوگئے ۔ 


بحرحال اپنے تجربات کی روشنی میں اپنے قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ رپورٹنگ کے دوران روزانہ متعدد معاملات سے پالا پڑتا ہے۔ اس میں تقریباً تمام معاملات سادہ لوح عوام کو لوٹنے کیلئے رچے ہوتے ہیں ۔ نوکریوں کے نام پر اخباروں میں اشتہار دیا جاتا ہے پھر ایک آفس میں بلا کر پیسے لیکر دفتر بدل دیا جاتا ہے۔ کمیٹی کے نام پر پیسے اکھٹے کئے جاتے ہیں اور یہ لوگ ہر معروف چوک چوراہے پر پائے جاتے اور پیسے لیکر رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ پلاٹ پر ٹاور لگانے کا جھانسہ دیکر پلاٹ ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔فیس بک پر ویڈیو کال کرکے دوستی کے بعد نازیبا ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک شخص ایف آئی اے نے گرفتار کیا جو اپنی وزارت بنا کر بیٹھا ہوا تھا وزارت شمسی توانائی۔۔۔میرے اوسان اس وقت خطا ہوئے جب پتہ چلا کہ اسے حکومت نے مکان بھی دے رکھا ہے اور اس وقت مختلف شہروں کے ڈی سی اوز اسی سکیورٹی کی مد میں نفری گاڑی، اور رہائش فراہم کرتے رہے ہیں اور وہ کئی سال سے یہ نوسر بازی جاری رکھے ہوئے تھا۔ قسطوں پر سامان دینے کا جھانسہ دیکر لوٹنے والے آج بھی ہر بازار میں بیٹھے ہیں۔ سود پر قرضہ دینے کا لالچ دے کر کئی خاندانوں کو اجاڑنے والے لوگ تاحال اپنا کاروبار دھڑلے سے کررہے ہیں اور اسی طرح کا ایک معاملہ تھانے میں میرے سامنے آیا وہاں وہ ان نوسربازوں کی چال چلن دیکھ کر لگ رہا تھا کہ تھانہ ان کی ملکیت ہے جبکہ تھانے کا عملہ ان کے پروٹوکول میں مصروف تھا چائے پانی پیش کیا جارہا تھا اور جس شخص نے قرضہ لیا تھا اس کے مطابق اس نے جو رقم لی تھی وہ کب کی واپس کردی ہے حتی کہ رقم کے بعد ایک سال گزچکا ہے اب بھی رقم دے رہا ہوں اور جان نہیں چھوٹ رہی اور نا ہی چھوٹ سکتی تھی چونکہ ہمارا تھانوں کا نظام ابھی تک بدلا نہیں ابھی بھی تھانوں میں موجود کالی بھیڑیں عوام کے ٹیکسوں کی تنخواہ پر پل کر عوام کو دھتکارتے ہیں اور جرائم پیشہ عناصر کو اپنا آقا مانتے ہیں اور جرائم کو تقویت دینے میں کردار انہیں کا ہے۔ 


مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے عوام میں آج بھی شعور کی بہت کمی ہے۔ ادارے تو موجود ہیں لیکن اداروں میں بیٹھے عملہ کی لاپرواہی نظر اندازی کے باعث لوگوں کا اداروں پر بھروسہ نہیں ہے۔ اب بہتری آرہی ہے لیکن یہ بہتری نا ہونے کے برابر ہے۔ کسی بھی شہر، گاﺅں یا صوبے میں عوام کی بھلائی میں مرکزی کردار پولیس کا ہے لیکن اس کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ اس لئے لوگ ان کے پاس جانے سے اپنی جمع پونجی لٹوانا بہتر سمجھتے ہیں۔ عوام میں شعور بیدار کرنے میں میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن میڈیا ریٹنگ کے چکروں میں چوبیس گھنٹے تمام چینلز پر ایک ہی سیاسی چہرے اور گالم گلوچ کا کلچر متعارف کروانے میں بہت زیادہ مصروف ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے اداروں کی بنیاد پر ترقی کرتے ہیں ۔ اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب صحت سے لیکر ڈیم بنانے تک اور عوامی معاملہ موبائل فون کے لوڈ پر ٹیکس کی کٹوتی تک ہر معاملہ میں عوام کو ریلیف دے رہے ہیں جس پر میں اور پوری قوم ان کو سلیوٹ کرتی ہے اور وہ ہمارے حقیقی معنوں میں ہیرو ہیں ۔ یہ دیگر عوامی نوعیت کے اداروں اور حکومتوں کا کام ہے لیکن ان کو پیسہ اکھٹا کرنے کا موقع چاہئے چاہے مرے ہوئے شخص کے کفن سے کیوں نا پیسہ اکھٹا کرنا ہو وہاں سے بھی پیسہ اکھٹا کیا جائیگا چونکہ اگر پیسہ نہیں ہوگا تو وزیروں مشیروں کے پروٹوکول کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا ان کے کھانے کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا۔ ان کے بیرون ممالک کے دوروں ، عالیشان رہائش گاہوں، پیرس اور دبئی میں ان کی بیگمات اور بچوں کی شاپنگ کا پیسہ کہاں سے آئے گا۔ بیرون ممالک میں کھربوں کی جائیدادیں بنانے کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا۔ حتی کہ ان کے گھر کے یوٹیلٹی بلز کیلئے پیسہ عوام نے ہی تو دینا ہے اگر نا دیا تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ آج تک مفاد عامہ کے قوانین میں ترمیم نہیں ہوئی ایک سڑک بنانے میں اربوں کے اشتہارات چلا دیئے جاتے ہیں لیکن عوام میں شعور بیدار کرنے کیلئے آگاہی پیدا کرنے کیلئے ایک اشتہار پر چند لاکھ نہیں خرچے جاسکتے۔ یہ سسٹم ہے اور ہم اس کا حصہ ہیں۔ بدلنا کس نے میں بھی سوچ رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں آپ سوچ لی جئے اور دیکھیں کیا کرنا ہے۔اگلی تحریر کے ساتھ دوبارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اگر کوئی اس طرح کی کال کرے مجھ سے رابطہ کرلیں یا کسی متعلقہ ادارے سے رابطہ کرلیا کریں اپنی محنت کی کمائی کو ان نوسر بازوں فراڈیوں کے حوالے مت کریں ۔ اللہ حافظ

Labels:

Post a Comment

[blogger]

MKRdezign

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget