ترکی (نیوز 6رپورٹ)ترکی کے الیکشن کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ صدر رجب طیب اردوغان صدارتی انتخابات پہلے مرحلے میں جیت گئے ہیں۔سرکاری میڈیا کے مطابق طیب اردوغان کو 53 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ ان کے قریبی حریف محرم انسے کو 31 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ حتمی نتائج کا اعلان جمعے کو کیا جائے گا۔تاہم حزب اختلاف نے ابھی تک صدر اردوغان کی کامیابی کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے اور سرکاری نتائج سے پہلے کہا تھا کہ بھی بھی بہت سارے ووٹوں کی گنتی ہونا باقی ہے اور نتائج جو بھی ہوں وہ ملک میں جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔الیکشن کمیشن کے بیان سے پہلے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنی فتح کے اعلان کے ساتھ پارلیمانی انتخابات میں اپنی جماعت اے کے پارٹی کی پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ترکی کا نیا آئین انتخابات کے بعد نافذ ہونے جا رہا ہے اور اس کے تحت صدر کو زیادہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے جمہوریت کمزور ہو گی۔صدارتی انتخابات کے علاوہ ترکی میں پارلیمانی انتخابات بھی ہوئے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق ابھی تک گنے گئے 96 فیصد ووٹوں میں صدر کی اے کے پارٹی 42 فیصد ووٹوں سے آگے ہے، جبکہ اہم حزبِ اختلاف کی پارٹی سی پی ایچ کے پاس 23ووٹ ہیںسرکاری براڈکاسٹر کے مطابق ووٹنگ کا تناسب 87 فیصد رہا ہے۔ اتوار کی صبح صدر اردوغان نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ اس مرتبہ ووٹروں کا ٹرن آو ¿ٹ زیادہ رہا۔اتوار کی صبح صدر اردوغان نے استنبول میں کہا کہ ’اس الیکشن کے ساتھ ترکی ایک جمہوری انقلاب سے گزر رہا ہے۔صدر اردوغان چاہتے تھے کہ انھیں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ ملیں تاکہ ووٹنگ دوسرے راو ¿نڈ میں نہ جائے۔صدراتی اور پارلیمانی ووٹنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے شروع ہوا۔رجب طیب اردوغان کا سینٹر لیفٹ رجحان رکھنے والے ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے امیدوار محرم انسے سے سخت مقابلہ تھا۔خیال رہے کہ ترکی میں جولائی سنہ 2016 میں ناکام تختہ الٹنے کے واقعے کے بعد سے ایمرجنسی نافذ ہے۔یہ انتخابات نومبر سنہ 2019 میں ہونے تھے لیکن صدر اردوغان نے انھیں قبل از وقت کرانے کا فیصلہ کیا۔صدر اردوغان اور ان کے حریف مسٹر انسے دونوں نے سنیچر کو اپنی انتخابی مہم کے آخری دن بڑی ریلیاں کیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو ترکی پر حکومت کرنے کا نااہل قرار دیا۔مسٹر انسے کی شعلہ فشاں انتخابی مہم نے ترکی کی پست حوصلہ حزب اختلاف میں جان پھونک دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردوغان کا آمرانہ دور حکومت اپنے خاتمے پر ہے۔انھوں نے استنبول میں تقریبا دس لاکھ کے مجمعے سے کہا کہ 'اگر اردوغان کی فتح ہوتی ہے تو آپ کے فون کی نگرانی جاری رہے گی۔۔۔ خوف کی حکومت برقرار رہے گی۔ اور اگر انسے کی جیت ہوتی ہے تو عدالتیں آزاد ہوں گی۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں تو ترکی میں عائد ایمرجنسی کو 48 گھنٹے کے اندر ہٹا لیا جائے گا۔ ایمرجنسی کی وجہ سے حکومت پارلیمان کو نظر انداز کرتی ہے۔دوسری جانب اپنی ریلی میں صدر اردوغان نے اپنے حامیوں سے ایک متشدد استعارے کا استعمال کرتے ہوئے پوچھا کہ 'کیا کل ہم انھیں عثمانی تھپڑ لگائیں گے؟'خیال رہے کہ رجب طیب اردوغان سنہ 2014 میں صدر بننے سے قبل 11 سال تک ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔
ترکی: طیب اردوغان انتخابات جیت گئے، دوسری مدت کے لیے صدر منتخب
ترکی (نیوز 6رپورٹ)ترکی کے الیکشن کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ صدر رجب طیب اردوغان صدارتی انتخابات پہلے مرحلے میں جیت گئے ہیں۔سرکاری میڈیا کے مطابق طیب اردوغان کو 53 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ ان کے قریبی حریف محرم انسے کو 31 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ حتمی نتائج کا اعلان جمعے کو کیا جائے گا۔تاہم حزب اختلاف نے ابھی تک صدر اردوغان کی کامیابی کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے اور سرکاری نتائج سے پہلے کہا تھا کہ بھی بھی بہت سارے ووٹوں کی گنتی ہونا باقی ہے اور نتائج جو بھی ہوں وہ ملک میں جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔الیکشن کمیشن کے بیان سے پہلے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنی فتح کے اعلان کے ساتھ پارلیمانی انتخابات میں اپنی جماعت اے کے پارٹی کی پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ترکی کا نیا آئین انتخابات کے بعد نافذ ہونے جا رہا ہے اور اس کے تحت صدر کو زیادہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے جمہوریت کمزور ہو گی۔صدارتی انتخابات کے علاوہ ترکی میں پارلیمانی انتخابات بھی ہوئے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق ابھی تک گنے گئے 96 فیصد ووٹوں میں صدر کی اے کے پارٹی 42 فیصد ووٹوں سے آگے ہے، جبکہ اہم حزبِ اختلاف کی پارٹی سی پی ایچ کے پاس 23ووٹ ہیںسرکاری براڈکاسٹر کے مطابق ووٹنگ کا تناسب 87 فیصد رہا ہے۔ اتوار کی صبح صدر اردوغان نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ اس مرتبہ ووٹروں کا ٹرن آو ¿ٹ زیادہ رہا۔اتوار کی صبح صدر اردوغان نے استنبول میں کہا کہ ’اس الیکشن کے ساتھ ترکی ایک جمہوری انقلاب سے گزر رہا ہے۔صدر اردوغان چاہتے تھے کہ انھیں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ ملیں تاکہ ووٹنگ دوسرے راو ¿نڈ میں نہ جائے۔صدراتی اور پارلیمانی ووٹنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے شروع ہوا۔رجب طیب اردوغان کا سینٹر لیفٹ رجحان رکھنے والے ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے امیدوار محرم انسے سے سخت مقابلہ تھا۔خیال رہے کہ ترکی میں جولائی سنہ 2016 میں ناکام تختہ الٹنے کے واقعے کے بعد سے ایمرجنسی نافذ ہے۔یہ انتخابات نومبر سنہ 2019 میں ہونے تھے لیکن صدر اردوغان نے انھیں قبل از وقت کرانے کا فیصلہ کیا۔صدر اردوغان اور ان کے حریف مسٹر انسے دونوں نے سنیچر کو اپنی انتخابی مہم کے آخری دن بڑی ریلیاں کیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو ترکی پر حکومت کرنے کا نااہل قرار دیا۔مسٹر انسے کی شعلہ فشاں انتخابی مہم نے ترکی کی پست حوصلہ حزب اختلاف میں جان پھونک دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردوغان کا آمرانہ دور حکومت اپنے خاتمے پر ہے۔انھوں نے استنبول میں تقریبا دس لاکھ کے مجمعے سے کہا کہ 'اگر اردوغان کی فتح ہوتی ہے تو آپ کے فون کی نگرانی جاری رہے گی۔۔۔ خوف کی حکومت برقرار رہے گی۔ اور اگر انسے کی جیت ہوتی ہے تو عدالتیں آزاد ہوں گی۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں تو ترکی میں عائد ایمرجنسی کو 48 گھنٹے کے اندر ہٹا لیا جائے گا۔ ایمرجنسی کی وجہ سے حکومت پارلیمان کو نظر انداز کرتی ہے۔دوسری جانب اپنی ریلی میں صدر اردوغان نے اپنے حامیوں سے ایک متشدد استعارے کا استعمال کرتے ہوئے پوچھا کہ 'کیا کل ہم انھیں عثمانی تھپڑ لگائیں گے؟'خیال رہے کہ رجب طیب اردوغان سنہ 2014 میں صدر بننے سے قبل 11 سال تک ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔
Post a Comment