HAR KHABAR

پیاس سے بلکتا پاکستان ، پانی کو ترستے عوام،بنجر کھیت و کھلیان ۔۔۔۔پاکستان میں پانی کا بحران آچکا !!! مانے یا نا مانے پانی پر جنگوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔۔۔!!!









تحریر ۔۔ ایچ آر قادری


آج کل سوشل میڈیا پرشیئر کی گئی ویڈیوز میں پاکستان کے تقریباً تمام شہروں سے پانی کی کمی کے باعث بچوں، بوڑھوں، خواتین کو ہاتھوں میں بوتلیں اور برتن لئے صبح سویرے سے رات گئے تک پانی کی تلاش میں بھٹکتے دیکھ کر دل خون کے آنسوں روتا ہے۔ یقین جانئے پانی کے مسائل کی سنگینی اور حالات کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب کا سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ساﺅتھ افریقہ کے ترقی یافتہ شہر کیپ ٹاﺅن کے باسیوں کو کہا گیا کہ زیر زمین پانی ختم ہورہا ہے پانی ضائع نا کریں۔ لیکن مہنگے گھر، گھروں کے آنگن میں سوئمنگ پولزمیں روزانہ دس پندرہ دفعہ پانی کی تبدیلی، مہنگی گاڑیوں کو روانہ دھویا نا جائے تو امراءکو سکون قلب حاصل نہیں ہوتا تھا ،،شائد یہی وجہ تھی کہ اب کیپ ٹاﺅن میں لیٹرین استعمال کرکے اسی استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے اور اس سے ضروریات زندگی کو پورا کیا جاتا ہے۔یعنی اسے پیا بھی جاتا ہے،، کیپ ٹاﺅن میں ہوٹلوں میں برتن کی جگہ ڈسپوزایبل پلیٹیں اور سامان مہیا کیا جاتا ہے تاکہ پانی بچایا جاسکے۔ آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ قوم کس کرب سے گزرہی ہے تو گوگل پر جاکر کیپ ٹاﺅن میں پانی کے حوالے سے سرچ کریں، نا صرف کیپ ٹاﺅن بلکہ باقی دنیا کا احوال بھی دیکھ لی جئے، سسکتے بلکتے پیاسے ہونٹ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ یقین جانئے آپ کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ وہ لوگ پانی کے حصول کیلئے قتل و غارت گری پر اتر آئے ہیں اور وہاں باقاعدہ قانون پاس کردیا گیا ہے کہ جو پانی ضائع کرتے ہوئے پایا گیا اسے جیل جانا پڑے گا یا پانی پر لڑائی جھگڑا کرنے والے افراد بھی جیل جائینگے۔ مانے یا نا مانے پانی پر جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ اب بات کرلیتے ہیں وطن عزیز پاکستان کی ۔کچھ رپورٹس اور حقائق قارئین کی نظر کرنا چاہوتا ہوں کہ پانی سے اب تک پاکستان میں کن کن مسائل کا سامنا ہے اور آئندہ کیا مسائل درپیش ہونے والے ہیں۔پہلے پہل وطن عزیز پاکستان میںہاتھوں میں بوتلیں، کین، بالٹیاں لئے بچے، خواتین، بزرگ کسی گاﺅں یا دور دراز علاقوں میں کم و بیش نظر آتے تھے، پھر یہ سلسلہ شہروں میں آہستہ آہستہ دیکھنے میں آیا، اب ہر گلی کوچے چوراہے پر وقوع پذیر ہے۔ 
پاکستان کے مختلف اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو پانی کی شدید قلت کے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ڈیموں میں صرف 30 دن پانی زخیرہ کرنے کی صلاحیت رہ گئی ہے اور کروڑوں شہری زہریلا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ یوںماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔زرعی ملک ہونے کے ناطے پانی کی بوند بوند پاکستان کیلئے اہم ہے لیکن یہاں تو پانی کی قلت خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں کی طرف نقل مکانی، موسمیاتی تبدیلیوں اور حکومتوں کی کوتاہیوں نے پاکستان کو پانی کی شدید قلت کے شکار 33 ممالک کی طرف دھکیل دیا ہے۔ پاکستان کے تین بڑے آبی زخائر منگلا، تربیلہ اور چشمہ میں صرف 30 دن کا پانی زخیرہ کرنے کی صلاحیت رہ گئی ہے۔ملکی دریاوں میں آنے والے پانی میں سے 28 ملین ہیکٹر فٹ پانی ضائع ہو کر سمندر میں چلا جاتا ہے۔عالمی معیار کے مطابق کم از کم 120 دن کا پانی زخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے جبکہ ترقی یافتہ ممالک ایک سے دو سال کیلئے پانی زخیرہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں دریاوں کا صرف 10 فیصد پانی ہی زخیرہ ہو پاتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 5 کروڑ پاکستانی آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ زیر زمین پانی میں آرسینک نامی زہر اور آلودگی شامل ہونے سے خطرناک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔پاکستان کے اکثریتی علاقوں میں پانی زیرزمین 1000 فٹ نیچے چلا گیا ہے۔ رہی سہی کسران علاقوں میں بارشوں کی قلت نے پوری کر د ی ہے۔پاکستان میں سالانہ 500 ملی میٹر جبکہ بھارت میں 1000 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ پاکستان میں شہریوں کو فی کس 1017 کیوبک میٹر جبکہ بھارت میں 1600 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت اور افغانستان کے آبی منصوبے پاکستان کیلئے خطرناک ہیں۔ پاکستانی دریاو ¿ں چناب اور جہلم پر بھارت نے بگلیہاراورکشن گنگا جیسے ڈیم بنا لیئے ہیں جبکہ افغانستان دریائے کابل پرہائیڈرو پاور منصوبے تعمیر کر رہا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان آج تک اپنی واٹر پالیسی کا اعلان نہیں کر سکا۔ پہلی واٹر پالیسی کا مسودہ 2003 میں تیار کیا گیا جو تاحال مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کا منتظر ہے۔ پانی کے حوالے سے صورتحال اس رپورٹ سے بھی ذیادہ تشویشناک ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر ہم توانائی بحران سے نکل بھی گئے تو خوراک کے بحران کی طرف جار ہے ہیں جس سے نکلنا بہت مشکل ہو گا۔ہمارے دریاو ¿ں میں 144 ملین ہیکٹر فٹ پانی آتا ہے جس میں سے صرف 13.8 ملین ہیکٹر فٹ پانی ذخیرہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سالوں میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے 38 ارب ڈالر کے نقصانات ہوئے ہیں۔ ہمارے پانی کے ذخائر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتے جارہے ہیں جن کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سال پاکستان میں ربیع کی فصل کے لیے 20 فیصد پانی کم ہونے کا امکان ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اچانک سیلاب یا خشک سالی بھی ہو سکتی ہے جس سے نمٹنے کیلئے ڈیمز کا ہونا ناگزیر ہے۔
مشاہداتی رپورٹس کے مطابق وطن عزیز میںایسے کئی افراد موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پانی کی قلت اور ہمارے مستقبل پر اس کے اثرات کے متعلق باتوں میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ ایسے افرادکا کہنا ہے کہ پاکستان میں 7,259 برفانی دریاو ¿ں (جن میں 2,066 مکعب کلومیٹر برف موجود ہے) پر مشتمل اور 11,780 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے، یعنی ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم، کی موجودگی کی وجہ سے اس ملک میں پانی کی مقدار لامحدود ہے۔ یہ برفانی دریائیں دریائے سندھ اور اس کے 11.2 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے بیسن کو پانی فراہم کرتے ہیں، جس کا 47 فیصد حصہ پاکستان میں، 39 فیصد حصہ بھارت میں، آٹھ فیصد حصہ چین میں اور چھ فیصد حصہ افغانستان میں موجودہے۔
تاہم پاکستان میں پانی کی قلت، وسائل کی کمی حتی کہ آلودگی کی شکل میں پانی کی کشیدگی کی علامات ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ صورتحال ماحولیاتی تبدیلی کے علاوہ پاکستان کے محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) کی ملک میں 2025ءتک پانی کی قلت کے متعلق پیشن گوئی کی وجہ سے مزید غیر یقینی ہو جاتی ہے۔پاکستان میں پانی کی سالانہ دستیابی 1,017 مکعب میٹرز فی کس ہے، اور جلد ہی 1,000 مکعب میٹرز تک پہنچ جائے گی، جو اس بات کی علامت ہے کہ اس ملک میں پانی کی شدید کمی ہے۔ پانی کے متعلق تحقیق کرنے والی حکومتی ایجنسی پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (Pakistan Council of Research in Water Resources - PCRWR) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 1990ءہی میں ‘پانی کی کشیدگی’ کی صورتحال پیدا ہونا شروع ہوچکی تھی، اور 2005ءمیں ‘پانی کی کمی’ کی نوبت آگئی تھی۔آبی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں پانی کی کمی ہو رہی ہے تو ہم عام طور پر فالکن مارک واٹر سٹریس انڈیکیٹر (Falkenmark Water Stress Indicator) کا حوالہ دے رہے ہوتے ہیں جس کے ذریعے فی کس دستیاب قابل تجدید پانی کے حجم کی پیمائش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں پانی کی تنگی کی وجہ حجم میں کمی نہیں بلکہ آبادی میں اضافہ ہے۔حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20.77 کروڑ ہے، اور اگر یہ اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو2047ءمیں، یعنی پاکستان کی100 ویں سالگرہ تک ،39.5 کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے پانی کی مانگ میں بھی تیزی سے اضافہ ہوجائے گا۔ 2015ءمیں جاری ہونے والی آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق، پانی کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا 2025ءتک 27.4 کروڑ ایکڑ فٹ تک پہنچنے کا امکان ہے، جبکہ پانی کی فراہمی 19.1 کروڑ ایکڑ فٹ ہی رہے گی، جس کی وجہ سے مانگ اور فراہمی میں تقریباً8.3 کروڑ ایکڑ فٹ تک کا فرق ہوگا۔
کراچی میں رہائشیوں کو جو تھوڑا بہت پانی ملتا ہے وہ سطح کا پانی ہے، جبکہ لاہور میں زمینی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ آب اندوخت (aquifer) کو جس رفتار سے خالی کیا جارہا ہے، اسے اس رفتار سے دوبارہ بھرا نہیں جارہا۔ اس میں سے پانچ سے ساڑھے پانچ کروڑ ایکڑ فٹ پانی نکالا جاتا ہے، لیکن صرف چار سے ساڑھے چار کروڑ ایکڑ فٹ پانی دوبارہ بھرا جاتا ہے۔ اس کی تصدیق ناسا کے زیر قیادت ایک مطالعے کے ذریعے بھی ہوچکی ہے۔ محققین نے 2003ءاور 2013ءکے درمیان دنیا کے سب سے بڑے 37 آب اندوختوں پر تحقیق کی، جس کے ذریعے انہیں معلوم ہوا کہ دریائے سندھ کا بیسن کشیدگی کے لحاظ سے دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے، اور اسے دوبارہ بھرے بغیر خالی کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ، اسے ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ (World Resource Institute) کے پانی کی کشیدگی کے انڈیکس میں بھی شامل کیا گیا ہے۔لاہور کی 1.1 کروڑ کی آبادی کو روزانہ 12.9 لاکھ ایکڑ فٹ زمینی پانی فراہم کیا جاتا ہے جو دستی پمپس، موٹر پمپس اور ٹیوب ویلز کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ 1960ءمیں پنجاب میں تقریباً 20,000 ٹیوب ویلز تھے، لیکن آج، آبی ماہرین کے مطابق، ٹیوب ویلز کی تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے!
کراچی واٹر بورڈ کے مطابق شہر کی 1.5 کروڑ کی آبادی کی پانی کی یومیہ مانگ 110 کروڑ گیلن ہے، لیکن اسے صرف 45 سے 48 کروڑ گیلن کے درمیان پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ پچاس فیصد سے زیادہ کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے، یہاں غیر قانونی طور پر ہائیڈرنٹس چلانے والے گروپس موجود ہیں، جو رہائشیوں کو پانی مہیا کرکے خوب منافع کمارہے ہیں۔آنے والے کئی سالوں میں ‘انتشار’ میں اضافہ ہوگا اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ٹینکر مالکان سے بھی زیادہ مکار ‘مافیا’ اٹھ کھڑا ہوگا۔ دیہی سندھ میں صورتحال کچھ خاص بہتر نہیں ہے، جہاں نہروں کے اختتام کے قریب موجود چھوٹے کسانوں کی زمین تک پانی نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے ان کے لیے کاشت بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ انہیں بمشکل جو پانی ملتا ہے وہ سمندری پانی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی زمین ناقابل کاشت بن جاتی ہے۔ جن افراد کی زمینیں برلب نہر واقع ہیں، ان کے اکثر اوقات سیاسی تعلقات بھی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے لیے محکمہ آبپاشی کو متاثر کرنا، قوانین کو نظرانداز کرنا اور پانی کا رخ اپنی زمین کی طرف موڑنا ممکن ہو جاتا ہے۔
ڈبلیوڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق لاہور میں زمینی پانی کی سطح میں ہر سال 2.5 سے 3 فٹ تک کی کمی ہوتی ہے، اور اب یہ شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ شہر کے مرکزی حصے میں پانی 130 فٹ سے نیچے آگیا ہے اور گلبرگ کے علاقے میں تقریباً147 فٹ نیچے چلا گیا ہے۔ اگر زیرزمین پانی کو محفوظ نہ کیا گیا اور پانی نکالنے کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2025ءتک زیادہ تر علاقوں میں پانی 230 فٹ نیچے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی گہرائی پر، کوئی بھی گنجائش رکھنے والا ٹیوب ویل لگا کر جتنا چاہے پانی نکال سکتا ہے۔ تاہم یہ صورتحال جلد ہی تبدیل ہونے والی ہے۔ صوبائی حکومت کے محکمہ آبپاشی نے اس قیمتی وسیلے کے بے در یغ استعمال کی روک تھام کے لیے پنجاب گراﺅنڈ واٹرپروٹیکشن، ریگولیشن اور ڈویلپمنٹ ایکٹ (Punjab Groundwater Protection, Regulation and Development2017 Act) تیار کیا ہے اور اس وقت مختلف اداروں سے مشاورت کا مرحلہ جاری ہے۔ اس ایکٹ کے نافذ ہوجانے کے بعد تجارتی اور صنعتی اداروں کو زمینی پانی نکالنے کے لیے اجازت حاصل کرنی پڑے گی۔ بلدیاتی پانی کے انتظام کے لیے 2014ءمیں پنجاب میونسپل واٹر ایکٹ متعارف کرایا گیا تھا لیکن اب تک اس کو نافذ نہیں کیا جا سکا۔مسئلے کا تعلق صرف زیر زمین پانی کی مقدار کم ہونے سے نہیں ہے بلکہ اس کی صنعتی اور گھریلو فضلے کی وجہ سے آلودہ ہونے سے بھی ہے۔پچھلے سال سائنس ایڈوانسز (Science Advances) میں شائع ہونے والی ایک تحقیق نے پورے پاکستان سے تقریباً بارہ سو زمینی پانی کے نمونے کے تجزیے کے بعد بتایا کہ چھ کروڑ افراد کو مہلک آرسینک کا خطرہ لاحق ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے پینے کے پانی میں آرسینک کی جو حد مقرر کی ہے، وہ 10 مائیکرو گرام فی لیٹر پانی ہے، لیکن پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ 50 مائیکروگرام فی لیٹر پانی قابل قبول ہے۔ اس تحقیق میں بتایا گیا ہے “آرسینک کا بہت زیادہ تناسب ، یعنی تقریباً 200 مائیکروگرام فی لیٹر خصوصی طور پر ملک کے جنوبی حصے میں پایا جاتا ہے”اور تنبیہہ کی ہے کہ آرسینک والے پانی کا باقاعدگی سے استعمال جلد کے امراض، پھیپھڑوں کے کینسر اور دل کی بیماریوں کی وجہ بن سکتا ہے۔اس سال کے شروع میں، پنجاب حکومت نے تمام 36 اضلاع میں کارروائی کا آغاز کیا اور ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے گندے صنعتی پانی اور فضلے سے سیراب ہونے والی کھڑی فصلوں کو تباہ کردیا۔ آگے چل کر ان کسانوں کو صرف غیرخوردنی فصلیں، جیسے کہ بانس، پھول اور گھر میں ا گائے جانے والے پودوں کی کاشت کی اجازت دی جائے گی۔
آبی وسائل کی پالیسی کے ماہر اور تربیت اور معلومات کے اشتراک کے لیے قائم کردہ بین الحکومتی مرکز برائے اجتماعی ترقی پہاڑ (International Center for Integrated Mountain Development - ICIMOD) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کی سب سے زیادہ ضرورت شعبہ زراعت کو ہوتی ہے۔ماہرین نے بتایا ”تقریباً 95 فیصد تازہ پانی زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے باوجود بھی پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن میں زرعی پیداوار سب سے کم ہے۔“ فصلوں کو بہت زیادہ پانی دینے کے باوجود پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہے۔ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے مطابق ملک میں پانی کی فی یونٹ پیداوار 0.13 کلوگرام فی مکعب میٹر ہے، جو پورے قطعے میں سب سے کم ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں پیداوار کی شرح 0.39 کلوگرام فی مکعب میٹر اور چین میں 0.82 کلوگرام فی مکعب میٹر ہے۔ ”پاکستان نے اپنے آبپاشی کے علاقے کو (برطانوی سامراج کے زمانے سے) بڑھانے کا آغاز کیا لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان قطعوں سے مزید فائدہ اٹھانے کے بجائے، زیادہ زمین کو سیراب کرنے کی کوشش کی۔ماہرین نے کچھی کینال پراجیکٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا بھی مقصد زیادہ زمین کو سیراب کرنا ہے۔ماہرین کہتے ہیں ”زراعت کے پانی کو دیگر سماجی اور اقتصادی شعبوں میں پانی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا ریاست کا بہت بڑا چیلنج ہے۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے کیونکہ اس میں پانی کے بہتر انتظام اور سائنسی علوم میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی اور اس سب کے لیے عزم کے علاوہ وسائل کی بھی ضرورت ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے کئی ممالک ہیں جن میں پاکستان کے مقابلے میں کم پانی ہونے کے باوجود جی ڈی پی اور معیار زندگی بہت بہتر ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فالکلینڈ واٹر سٹریس انڈیکٹر کے پیمانے کے ذریعے پانی کی قلت کی پیمائش کے قطع نظر اچھا معیار زندگی ممکن ہے۔ان ممالک میں بہتر معیار زندگی معیشت میں زراعت کا تناسب کم کرنے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایسے کئی ممالک ہیں، لیکن ماہرین نے پاکستان کے ساتھ موازنے کے لیے مصر کا انتخاب کیا۔ ماہرین کہتے ہیں ”مصر میں پانی کی دستیابی کا کوٹہ کم ہوتے ہوتے سالانہ بنیاد پر 666 مکعب میٹر ہوگیا ہے، یعنی کہ 43 سال میں 60 فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود مصر میں 2016ءمیں جی ڈی پی 3,685 ڈالر فی کس تھا، جبکہ پاکستان میں صرف 1,441 ڈالر رہا۔ مصر کی معیشت میں زراعت کا حصہ محض دس فیصد ہے۔“اسرائیل صحرا کے بیچوں بیچ واقع ہے، لیکن وہ بھی صحیح ٹیکنالوجی، اقتصادی وسائل اور سیاسی عزم کے بل بوتے پر اپنی زمین کے تقریبا 40 فیصد حصے کو فضلے کے پانی سے سیراب کرنے کی صلاحیت پیدا کرچکے ہیں۔ ہم ان کے شفدان ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ فیسلیٹی (Shafdan Wastewater Treatment Facility) سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اس پراجیکٹ کے ذریعے جنوبی اسرائیل میں واقع صحرائے نقب کو سالانہ 14 کروڑ مکعب میٹر پانی فراہم کرکے 50,000 ایکڑ زمین کو سیراب کیا جاتا ہے۔
اقتصادیات کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جب کوئی چیز کم ہو جائے اور اس کی مانگ بڑھ جائے تو اس کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ آج پانی کی قیمت لگانے کو قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق اس مسئلے کا حل یہی ہے۔ اگر پانی کو موثر طور پر استعمال کرنا ہے تو اس کی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔موجودہ پانی کے وسائل کی بدانتظامی کے علاوہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارش کے پیٹرن کی تبدیلی اور ذخائر میں سرمایہ کاری ناکافی ہونے کے باعث پاکستان میں شدید سیلاب، قحط سالی اور قدرتی آفات کے اضافے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔
ماہرین کے نزدیک ہر سطح پر پانی کے ذخائر کے ذریعے پانی کی بچت کرکے قلت کے مسائل کافی حد تک حل کیے جاسکتے ہیں۔ہم اس وقت دستیاب سطح کے پانی میں سے آٹھ فیصد سے بھی کم پانی ذخیرہ کر رہے ہیں۔ دریائی نظام کی ماحولیاتی بہاو ¿ کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد ہم اضافی پانی کو بغیر استعمال کیے سمندر میں ضائع کردیتے ہیں، جبکہ ہمیں ایک دیرپا نظام آبپاشی کے قیام کے لیے تقریباً 40 فیصد پانی ذخیرہ کرنا چاہئے، پورا سال ہمارے دریاو ¿ں میں پانی کی فراہمی ناہموار رہتی ہے، جس کی وجہ سے ہر سطح پر مناسب ذخیرے کی عدم فراہمی کی صورت میں پانی کے وسائل کا تسلی بخش انتظام ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس طرح دریاو ¿ں کے نچلے حصوں میں، جہاں سال کے تین مہینے 75 سے 80 فیصد پانی دستیاب ہوتا ہے، لیکن باقی نو مہینے پانی دستیاب نہیں ہوتا، ڈیلٹا کے سوکھنے کا بہانہ ختم ہوجائے گا۔ پانی کے ذخائر کے ذریعے پانی کی بچت کے اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے ڈیلٹا کا تحفظ اور سمندری پانی کے داخلے کی روک تھام ممکن ہے۔ ذخیرہ ہونے والے پانی کے بہتر انتظام اور برابری کے اصولوں کے تحت پورا سال یا حسب ضرورت خارج کیا جاسکتا ہے۔
1976ءمیں دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد اب تک کوئی نیا بند تعمیر نہیں کیا گیا ۔ آج دریائے سندھ کے بیسن کے دونوں بڑے ذخائر، یعنی تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم (جسے دریائے جہلم پر 1961ئ اور 1967ءکے درمیان تعمیر کیا گیا تھا)، پاکستان میں سالانہ بنیاد پر گزرنے والے 4.5 کروڑ ایکڑ فٹ پانی میں سے صرف 1.4 کروڑ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرتے ہیں، اور وہ بھی صرف 30 روز کے لیے، جبکہ بین الاقوامی معیاروں کے مطابق یہ میعاد 120 دن ہونی چاہیئے۔تاہم زیادہ انفراسٹرکچر قائم کرنے کی حکمت عملی ہمیشہ ہی سے مقبول رہی ہے، اور یہ شاید ضروری بھی ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان کو اپنے موجودہ پانی کے انتظام کو بہتر بنا کر انفراسٹرکچر میں بہتری لانے کی بھی ضرورت ہے۔ حکومتی اداروں میں پانی کے شعبے کو بہتر بنانے کی صلاحیت محدود ہے، لیکن انہیں ٹھیک کرنے کی متعدد کوششیں اور سرمایہ کاری ناکام رہی ہے ۔ پانی کے انتظام کے لیے نجی شعبے کی مداخلت از حد ضروری ہے ”ہمیں مزید اختراعی حل نکالنا ہوگا۔ سہولیات کی تقسیم کرکے غیرریاستی شعبوں کے ہاتھ میں دے کر ان مسائل کے حل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔
اس وقت حکومتوں تمام اداروں اور وطن عزیز کے باسیوں کو اس اہم مسئلے کی سنگینی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ آسان مسئلہ ہرگز نہیں ہے جس کا حل ایک دو دنوں یا ہفتوں میں نکل سکتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ پانی کے معاملات اسی طرح فراموش کئے جاتے رہے تو پاکستان میں سب سے پہلے قحط سالی ڈیرے ڈالے گی، بجلی بحران کھڑا ہوگا، انڈسٹری بند ہوجائیگی۔جس دن گھر میں پانی نا آرہا ہو معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوجاتے ہیں۔ اندازہ کریں اگر مستقل طور پر نہانے یا دیگر استعمال تو درکنار پینے کیلئے پانی دستیاب نا ہو تو کیا ہوگا۔ یہ سب کو سوچنا ہے۔ مجھے بھی، آپ کو بھی، حکومتوں کو بھی، اداروں کو بھی، ہم صرف حقائق سے آگاہ کرسکتے ہیں اور کررہے ہیں۔امید ہے اس معاملے کی نزاکت کو سمجھ کر اس پر جلد از جلد ایمرجنسی کے طور پر کام کیا جائیگا۔ اگلی تحریر کے ساتھ دوبارہ حاضر ہوں گا۔ اللہ حافظ

Post a Comment

[blogger]

MKRdezign

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget